بہن چود بھائی
تحریر: پی کے ساقی
میرا نام
فوزیہ ہے اور میرا تعلق پنجاب کے ایک گاوں سے ہے؛ میری فیملی میں میری بڑی بہن جسکی
۲سال پہلے
شادی ہویی
تھی
لیکن ۱ سال بعد طلق ہو گئی تھی اور وہ اپنے ایک بیٹےکے ساتھ ہمارے ساتھ
رہتی ہیں اس کےبعد میرے ایک
بھائی ہیں
جو روزگار
کے سلسلے میں
ملک
سے باہر ہیں
اور سب سے آخر میں میرا نمبر ہے۔
میری کہانی
آج سے ۳ سال پہلے شروع ہوتی ہے جب میں نے گاوں کے سکول سے میٹرک کا امتحان
پاس کیا
اور مجھے
آگے پڑھنے کا
بہت شوق
تھا لیکن میری امی کسی طور پر
بھی راضی
نہیں تھیں کہ مجھے شہر میں تعلیم کیلے بھیجتیں۔۔ میری ضد کی وجہ سے امی
نے ابو سے
بات کی جو کراچی میں روزگار کے سلسلے
پچھلے ۱۳ سے ایک میڈیسن کمپنی میں سیلز مین کا کام کر رہے ہیں؛ کہ آپ فوزیہ
کو اپنے پاس بل لیں
اسطرح وہ
اپنی تعلیم بھی مکمل کر لے گی
اور آپ کو
بھی گھر کے کام کاج سے جان چھوٹ جائے گی جو وہ اپنی ڈیوٹی کے بعد کرتے تھے۔ ابو نے
فورآ کہا
ٹھیک
ہے اسے بھیج
دو میں یہاں اسکا
داخلہ کر
دوں گا۔ میں دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی شہر جاوں گی اور کالج میں داخلہ لوں گی
قصہ مختصر ۲
مہینے لگے
اور ابو ۱۰ دن کیلے گھر آئے
اور واپسی
پر میں بھی ان کے ساتھ کراچی کیلے روانہ ہوگی۔ کراچی پہنچنے پر پہلے تو بہت خوش
ہوئی لیکن یہاں
کی ٹریفک
اور رش دیکھ
کر میرا دل گھبرا
گیا اور ایک
پل کو تو یہ سوچا کہ ابو سے بولوں مجھے واپس بھیج دیں لیکن میں خاموش ہوگئی یہ سوچ
کر کہ
کچھ دنوں میں
عادی ہو
جاوں گئی
اور یہی ہوا یہاں کی چہل پہل اور شور شرابے کی میں بھی عادی ہو گی؛ کچھ دنوں کے
بعد ابو نے میرا
داخلہ ایک
کالج
میں کر دیا
جو
گھر سے قریب
تھا اور میں باقاعدگی سے کالج جانے لگی؛ شروع کے دنوں میں مجھے کچھ پرابلم ہوئی لیکن
آہست
آہستہ میں
بھی عادی ہوگئی ان سب باتوں
کی جو کسی
بھی نئی جگہ پر جانے میں ہوتے ہیں۔ اسی دوران میں کالج سے واپس آ کر گھر
کی صاف
صفائی کرتی جو ابو نے کبھی ٹھیک سے نہیں کی ہو
تھی۔ آہستہ
آہستہ میں نے کوارٹر کو صاف ستھرا کر دیا جو ۲ کمروں ، کیچن اور ۱ باتھ پر مشتمل ہے اور پھر
میرے اصرار
پر ابو نے گھر کا رنگ روغن بھی
کرا دیا
اور ہمارا گھر صاف ستھراہو گیا۔ ابو نے یہ سب دیکھا تو وہ بہت خوش ہو گئے اور کہنے
لگے یہاں زندگی
گزر گئی ہے
لیکن کبھی
ٹائم پر کھانا بھی
نہیں کھایا
ہے لیکن تمھارے آنے سے یہ گھر بن گیا ہے جو پہلے صرف ایک کوارٹر تھا؛ آہستہ آہستہ
وقت گزرتا
گیا اور
مجھے یہاں آے ہو
مہینے گزر
گئے ۷
اس سارے
وقت میں؛ میں نے خود کو کافی بدل لیاتھا اور یہاں کے رہن سہن کے مطابق میں بھی ڈھل
چکی تھی
اور کچھ یہاں
اکر نکھار بھی آ چکا تھا اسی
دوران
میں نے
نوٹس کیا کہ ابو مجھ سے باتیں بھی زیادہ کرنے لگےہیں اور وہ کوشش کرنے لگے ہیں کہ
میرے ساتھ کھانا
کھائیں؛ جب
کہ پہلے وہ ہمیشہ کہتے تھے تم
کھانا
کھا لینا میرا
نہیں پتا میں کب واپس آوں گا۔ وقت گزرتا گیا اور پتہ بھی
نہیں چل کہ
میں سیکنڈ ایر میں آ گئی۔ سب کچھ نارمل تھا امی سے بھی روزانہ
بات ہوتی
تھی اور ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ابو کا خیال رکھنا وہ سارا دن کام کرتے ہیں تم تائم
پر کھانا
بنا کر دینا
وغیرہ وغیرہ میں یہی جواب دیتی کہ امی
میں یہ سب
تو کر رہی ہوں۔ پھر وہ کہتی ٹھیک ہے اپنی پڑھائی پر توجہ دو جس کام کےلیئے تم گئی
ہو دل لگا کر
کرنا میں
ہمیشہ یہی جواب دیتی ہں امی
آپ فکر نہ
کریں میں ایسا ہی کروں گی۔ پھر یوں وقت گزرتا گیا پھر اچانک سے میں نے نوٹ کیا ابو
کام سے لیٹ
آنے لگے
اور کبھی کبھی تو میں سو جاتی
تھی اور وہ
کب آتے تھے مجھے پتا بھی نہیں
چلتا تھا؛
کچھ دن یوں ہی گزر گے پھر ایک دن میں نے ابو سے پو چھا آپ لیٹ کیون آتے ہیں آپ
پہلے وقت پر آ
جاتے تھے،
لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کام زیادہ ہوتا ہے اسی وجہ سے لیٹ ہو جاتا ہوں
میں نے ان
کی بات پر یقین کر لیا اور اپنی معمول کی زندگی
میں مصروف
ہوگی۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ابو بہت لیٹ آئے اور کچھ عجیب عجیب سی باتیں کر رہے
تھے پھر
مجھے
اندازا ہوا کہ وہ نارمل پوزیشن
میں
نہیں ہیں
انہوں نے کچھ نشہ کر رکھا ہے اور ان کے منہ سے بدبو آرہی تھی جو بعد میں کسی کالج
کی فرینڈ
سےپتا کرنے
پر معلوم ہوا کہ یہ شراب کی بو تھی۔
خیر میں
وقتی طور پر پریشان ضرور ہوئی لیکن
زندگی کی
گاڑی اگے بڑہتی چلی گئی اور میرا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھتا چل گیا اور میری امی سے
اکژ بات
ہوتی تھی
اور وہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں اپنی تعلیم پر توجہ دو اور اپنا ہمیشہ خیال رکھنا اور
میں یہ سوچتی
آخر ماں ہیں
جوان بیٹی کی فکر کرنا ان کا حق بھی
ہے اور زمہ
داری بھی ہے۔ پھر ایک رات ایسا ہوا میں گہری نیند سو رہی تھی اور ابو لیٹ آہے اور
وہ میرے پاس
اکر لیٹ
گہےپہلے تو مجھے نیند کی وجہ سے
پتہ نہیں
چل
لیکن جب میری
آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا وہ میری چھاتی پر ہتھ مار رہے تھے؛ پہلے تو میں
گھبرا گئی
تھی اور
اٹھ کر دوسری چارپائی
پر جاکر سو
گئی؛ صبح جاگنے پر مجھے رات کی بات پر حیرت ہو رہی تھی اور
سوچ رہی تھی
کہ یہ سب کیسے ممکن ہے کہ ایک بیٹی اپنے باپ سے جسمانی
رشتہ رکھے؛
اسی پریشانی میں؛ میں نے یہ بات اپنی بہن سے شیئر کی لیکن میری بہن کا جواب نے
مجھے حیرت
میں ڈال دیا؛
اس کے بقول بیٹی کا
اپنے باپ کی
طرف راغب
ہونا نیچرل بات ہے؛ میرے مزید پوچھنے پر باجی نے حیرت انگیز انکشافات کیئے جو میں
نے پہلے
زندگی میں
نہ کبھی سنے تھے اور نہ دیکھے تھے۔
پہلی بار
مجھے اپنی بہن کی طلق کی وجہ سمجھ آئی
کہ میری
بہن کو کیوں طلق ہوئی تھی اور اسکا سبب میرے ابو تھے جن کے میری بہن سے چھ سال سے
جسمانی
تعلقات ہیں اور جب باجی کا حمل ہوا تو باجی کی شادی کر دی گئی لیکن جلد ہی انہیں
معلوم ہو گیا تھا
کہ باجی
پہلے
سے حاملہ ہیں
تو انہوں نے
طلق دے دی۔
بقول باجی کے جب بھی ابو گھر میں چھٹی آتے تھے امی کے بجاہے باجی کے ساتھ سوتے تھے
اور
باجی جب یہ
باتیں کر رہی تھی تو ان کے لہجے
سے ذرا بھی
محسوس نہیں ہو رہ تھا کہ وہ
وہ کیا کر
رہی ہیں۔ جب میں نے مزید اصرار کیا تو باجی نے کہا مجھے معلوم ہے یہ سب ٹھیک نہیں
ہے لیکن جو
بھی ہوا ہے
اس میں امی کا ہتھ بھی ہے؛ شاید امی نے اپنی بقا کےلیے یہ سب کیا ہوا ہو؛ کیوں کہ
امی کی عمر
اور ابو کی
عمر میں زیادہ
فرق نہیں ہے اور امی ابو
سے بڑی لگتی
ہیں؛ شاید یہی وجہ ہو گی کہ امی کو ابو پسند بھی نہیں کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی
بیٹی کو آگے
کر دیا۔ یہ
ساری باتیں سننے کے بعد میں نے
باجی سے
پوچھا کیا تمہیں یہ سب کرتے ہوہے
شرم حیا نہیں
آتی تو باجی کہنے لگی آتی تھی لیکن اب نہیں آتی ہے؛ میرے اصرار کرنے پر وہ کہنے لگیں
کہ
ایسے رشتوں
کا ایک اپنا مزا ہوتا ہے جو ناجاہزہوتے ہیں؛ میں نے جتنی بار بھی ابو کے ساتھ سیکس
کیا مجھے
زیادہ مزا
آیا بنسبت اپنے شوہر کے
جس کے ساتھ
سیکس کرکے
مجھے کبھی اتنا مزا نہیں ایا۔۔!! میں یہ سب باتیں سن کر حیرت میں پڑہ گئی اور
سوچنے لگی کیا اس
دنیا میں ایسے
بھی ہوتا ہے۔۔
پھر کچھ دن
ایسے ہی
گزر گئے یہ سب باتیں سوچھتے سوچھتے۔ پھر ایک رات ایسے ہوا ابو نشے کی حالت میں گھر
آئے اور
میں سو رہی
تھی اور میرے پاس آکر لیٹ
گہے؛ ان کی
موجودگی کا احساس پاکر میں انجان بنی رہی اور یہ دیکھ رہی تھی کہ ابو کیا کریں گئے
ابو نے میری
شرٹ کے اندر ہتھ ڈال کر میری چھاتی پر ہتھ
پھیرنے لگے
اور میں یہ سب محسوس کر کے بھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مجھے کچھ پتا
نہیں اور
خود کو ابو
کے رحم و کرم خود کو چھوڑ دیا
ابو نے میری
شرٹ کو اوپر کرکے میرے بریزیئر کو نکال دیا اور میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں پھر
آہستہ آہستہ
ابو نے میری
شلوار کو بھی نکال دیا اور میری
پھدی میں
انگلی کرنے لگے اور پھر یہ سب میری برداشت سے باہر ہونے لگا اور میں نے دوسری طرف
کروٹ بدل لی
لیکن ابو
مسلسل میرے چھاتی پر اپنا منہ
رکھ کر میرے
نپل کو چوس رہے تھے جس کی وجہ سے میری برداشت سے یہ سب باہر ہوگیا اور پھر ابونے میری
ٹانگیں
کھول کر اپنے کندھے پر اور اپنے لن کو
میری چوت میں
اوپر نیچے کرنے لگے اور ان ک ایسا کرنے سے میری جان نکل
رہی تھی لیکن
میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اسی اثنا میں ابو نے اپنا لن
میری چوت میں
ڈال دیا اور زور زور سے جھٹکے مارنے لگے تھوڑی سی تکلیف ک بعد مجھے بھی مزا انے
لگا اور
میں بھی ان
کا ساتھ دینے لگی؛ اور تھوڑی دیر
میں ابو میرے
اندر فارغ ہو گے لیکن
مجھے بے چینی
سی ہو رہی تھی اور ابو سمجھ گئے کہ میں ریلکس نہیں ہوئی پھیر انہوں نے اپنی زبان
سے مجھے
فارغ کیا
اور ریلکس
ہو گئی اور مجھے پتا بھی نہی چل ویسے ہی سو گئی۔ جب میں صبح اٹھی تو بستر پر خون
کے نشان
دیکھ کر
رات وال واقعہ آیا اور میں بہت
پریشان ہو
گہی اور اس دن میں کالج بھی نہیں گئی سارا دن گھر میں بستر پر پڑی رہی اور رات
والے واقعے کو
سوچ سوچ کر
پریشان ہوتی رہی تھی پھر اچانک
سے باجی کی
کال آئی اور وہ ادھرآدھر کی باتیں کرنے کے بعد مجھے سے رات والے واقعے کے بارے میں
بات کرنے
لگی
پہلے تو میں
انجان بننے لگی اور کہا ایسی
کوئی بات
نہیں ہے پھر باجی نے کہا زیادہ سیانی نہیں بنو مجھے ابو نے صبح سب کچھ بتا دیا
تھا۔ اس کی یہ بات
سننے کے
بعد میں لجواب ہو گئی کیوں کہ جو
وہ کہہ رہی
تھی وہ سچ ہی تھا۔ پہلے تو باجی نے کہا ابو کو تمہارے ساتھ ایسا
نہیں کرنا
چاییے تھا وہ میرے ساتھ وہ جو کچھ بھی کرہے ہیں مجھے بھی پہلے
اچھا نہیں
لگا تھا لیکن وقت کے ساتھ مجھے بھی ان کے ساتھ سیکس کرنا اچھا لگنے لگا اور کبھی
کبھار میں
خود رات کو
ان کے پاس چلی جاتی تھی اور امی یہ
دیکھ کر
آنکھیں بندکر دیتی تھیں اور کبھی
یہ شکایت
بھی نہیں کرتی تھیں؛ ایک بار میں نے ابو سے پوچھا کہ امی یہ سب کیسے برداشت کرتی ہیں
اور اپنی
آنکھوں کے
سامنے ہوتا ہوا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتی۔ میرے بے حد اصرار کرنے پر آخر انہوں نے
مجھے یہ بات
بتائی کہ
تمہاری امی کے بھی تمہارے نانا سے
جسمانی
تعلقات
تھے اور وہ
جب تک زندہ تھے تمہاری امی ان سے ملنے جاتی تھیں اور اسی صدمے کی وجہ سے تمہاری
نانی نے زہر
کھاکر مر
گئی تھیں اور دنیا
یہ سمجھتی
رہی کہ تمہاری نانی اپنی موت مری ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھے تمہاری امی نے خود بتائی
ہیں اور اس
نے یہ بات
خود تسلیم کی ہے
کہ مجھے
تمارے
بجاہے اپنے
ابا کے ساتھ سیکس کرنے میں زیادہ مزا آتا تھا اور کئی بار تمارے نانا ہمارے گھر
آتے تھے اور کئی دن
ہمارے پاس
رہتے تھے اور اس دوران تمہاری
امی ہر وقت
تمارے نانا کے آگئےپیچھے گھومتی تھیں اور میں سب دیکھ کر کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا
کیوں کہ
یہ سب
تمہاری امی
اپنی مرضی سے کرتی تھیں
اور تمہاری
امی کو اس بات کا زرا بھی ملل نہیں ہے اور کہتی ہیں میں نے جتنا سیکس اپنے ابا کے
ساتھ انجواہے
کیا اتنا
کسی کے ساتھ نہیں اور مجھے صاف
لفظوں میں
کہتی رہی ہیں کبھی میرے اور ابا کے درمیان نہیں آنا اور میں کبھی نہیں آیا جب
بھی تمہاری
امی کا دل کیا وہ اپنے ابا کے پاس جاتی تھیں اور آج
یہی وجہ ہے
کہ وہ یہ سب دیکھ کر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتیں اور مجھے اکثر کہتی ہیں میں تو
بڈھی ہو گئی
ہوں اور
تمہیں گھر میں جوان چوت ملی
ہوئی ہے
تمہیں کہیں جانا بھی نہیں پڑتا۔ ابا کی یہ ساری باتیں سننے کے بعد مجھے یہ سب
نارمل لگنے لگا
اور کبھی یہ
احساس بھی نہیں ہوا کہ کچھ غلط ہو
رہ ہے اور
آج خود ابو نے مجھے فون کر کے تمہارے ساتھ ہونے وال واقع بتایا یہ کہہ کرباجی نے
فون بند کر دیا۔۔۔
میں یہ سب
سن کر ہکی بکی رہ گئی اور میرا
دماغ کچھ
تاہم کیلے ماوف ہوگیااور میں یہ سب سوچتے سوچتے سو گئی اور تقریبا نو بجے
ابو کے آنے
کی وجہ سے میری آنکھ کھلی اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی
اور میرے
پاس آکر بیٹھ گئے اور مجھے مسلسل دیکھے جا رہے تھے لیکن میں شرمندگی سے ان سے آنکھ
نہیں مل
رہی تھی
پھر انہوں نے اپنے دونوں ہتھوں سے
میرے چہرے
کو پکڑ کر اپنے قریب کیا اور پوچھا کیا تم رات والی بات سے
پریشان ہو
میں نے بغیر کچھ بولے اثبات میں سر ہل دیا اور انہوں نے مجھے اپنے
سینے
سےدبوچ لیا اور میں بھی ان سے لپٹ گئی اور میراخوف اور پریشانی کچھ کم ہونے لگی
میں دس منٹ
تک ان کے سینے سے لگی رہی پھر انہوں نے کہا
اٹھو فریش
ہو جاو اور کھانا لگاو آج میں ریسٹورینٹ سے کھانا لے کر آیا ہوں تمیں بنانا نہیں
پڑے گا، میں جلدی
سے واش روم
میں گئی باتھ لے باہر آگئی
پھر اپنے
گھیلے بالوں کے ساتھ ہی میں نے ٹیبل پر کھانا لگایا اور ہم کھانا کھانے لگے۔
کھانا ختم
کرنے کے بعد میں نے برتن سمیٹے اور ٹی وی دیکھنے لگی ابو
بھی کچھ دیر
میں آکر میرے پاس بیٹھ گئے اور ٹی وی دیکھنے لگے میں یوں ہی چینل چینج کر رہی تھی
اور وہ
مجھے بہت پیار
سے دیکھ رہے تھے اور میں جان
بوجھ کر یہ
ظاہر کر رہی تھی جیسے مجھے کچھ پتا نہیں آخر وہ بولے بیٹا کیا سوچ رہی
ہو؟ میں نے
کہا ابو کچھ نہیں سوچ رہی یہ بات سننے کے بعد ابو نے کہا
میں سونے
جا رہ ہوں اور تم بھی وقت پر سوجانا۔ میں کافی دیر ٹی وی دیکھتی رہی لیکن بوریت ہو
رہی تھی۔ پھر
میں نے ٹی
وی بند کیا اور جا کر اپنے بیڈ پر
لیٹ گئی؛ نیند
کیسے اتے دماغ میں وہ ساری باتیں گردش کر رہی تھیں جو باجی نے امی اور
نانا کے
جنسی تعلقات کے حوالے سے بتائی تھیں۔ یہ سوچ کر میں
حیران تھی
کہ امی کا اتنا بڑا راز مجھے کیوں پتا نہیں چل اور باجی کا ابو کے ساتھ جنسی
تعلقات اتنے عرصے سے
ہیں اور میں
ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے
کیسے بے
خبر تھی۔۔اسی اثنا میں ابو واش روم گئے اور دروازے کی آواز سے میں ان سب خیالوں سے
باہر آہی۔
باتھ روم
سے باہر آنے کے بعد ابو نے مجھے آواز
دی کیا تم
جاگ رہی ہو میں نے ابو سے کہا ہں میں جاگ رہی ہوں اور میرے کمرے میں آگہے اور کمرے
کی لئٹ
آن کر دی۔
میں اپنے
بستر پر لیٹی رہی اور
ابو میرے
پاس آکر بیٹھ گئے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کیا
تم کل رات
کے واقع پر
سوچ رہی ہو؟ میں نے کچھ دیر
خاموش رہنے
کے بعد جواب دیا میں ان باتوں کو سوچ کر پریشان ہوں جو باجی نے آپ کے اور باجی سے
تعلق کے
حوالے سے
بتائی ہیں اور امی کے نانا
ابوکے
حوالے سے
بتائی ہیں؛ میرا یہ جواب سننے پر وہ کچھ حیران بھی ہوئے اور پھر پریشان بھی۔۔ان کی
خاموشی دیکھ کر
میں نے ان
سے کہا آپ نے بھی تو کل رات
والی ساری
بات باجی کو بتا دی تھی۔۔کیا یہ سب باجی کو بتانا ضروری تھا؟ وہ مجھے معنی خیز
نظروں سے
دیکھنے لگے
اور کوئی جواب نہ دے سکے ، میں نے
ناراضگی میں
اپنا منہ دوسری
طرف کر کےلیٹ
گئی ان کے بلنے پر بھی میں جب نہیں بولی تو وہ آرام سے میرے ساتھ لیٹ گئے اور
آہستہ آہستہ
میرے بالوں
میں ہتھ پھیرتے
ہوئے باتیں کرنے لگے اور میرادل زور زور سے دھڑک رہ تھا اور مجھ میں کچھ بولنے کی
سکت
نہیں تھی
پھر انہوں نے میری چھاتی پر ہتھ
پھیرنا
شروع کیا اور میں نیچے سے گھیلی ہو گی اور میں نے ابو سے کہا پہلے لہٹ
بند کر دیں
اور انہوں نے جلدی سے لئٹ بند کی اور پھر میرے پاس آکر
لیٹ گئے
اور مجھے اپنی طرف کر کے میرے ہونٹوں کو چوسنے لگے پھر انہوں نے میری قمیص نکال دی
اور میرے
بریزیئر کو
بھی نکال دیا اور میرے ممے تنے
ہوئے ابو
کے سامنے تھے وہ پاگلوں کی طرح میرے مموں کو چوس رہے تھے اور ابو نے اپنے سارے
کپڑے نکال دیئے
اور میری
شلوار بھی نکال دی
جب ابو نے
میری چوت میں
انگلی پھیری تو کہنے لگے تم تو بہت گھیلی ہو گئی ہو میں نے کہا ہں ابو جی ، اب
اپنا لن میری
چوت میں
ڈال دو اب مجھ سے برداشت
نہیں ہوتا
پھر ابو نے میری ٹانگیں اپنے کاندھے پر رکھی اور اپنے لن کو میری چوت میں آہستہ
آہستہ اندر باہر
کرنے لگے
اور آج ابو کا لن بہت ٹائٹ تھا اور وہ
خوب زور
زور سے میری چوت میں ڈال رہے
تھے اور میں
دل کھول کر ابو کے لن کا مزا لے رہی تھی، پھر ابو نے مجھے دوسری پوزیشن میں لے ائے
خود نیچے
لیٹ گئے
اور میں اوپر آگئی انہوں نے جب میری چوت میں ڈال کر میرے مموں کو اپنے منہ میں لیا
تو میں فارغ ہو
گئی لیکن
وہ ابھی تک فارغ نہیں ہورہے
تھے اور
مجھے کچھ درد محسوس ہونے لگا اور میں نے ابو سے کہا مجھے چوت میں درد ہو رہ ہے آپ
بس کریں۔
ابو نے لن
کو میری چوت سے باہر نکال جو
اسی طرح
ٹائٹ تھا انہوں نے میرے مموں کو پھر سے زور زور سے چوسنا شروع کر کر دیا اور پھر
اچانک سے انہوں
نے اپنا
منہ میری چوت پر رکھ دیا اور اپنی
زبان سے میری
چوت کو چاٹنے لگے اور مجھے پھر سے مزا آنے لگا اور میں نے اپنے ہتھوں سے ابو کے سر
کو پکڑے
رکھا اور میں
میرا دل چاہ رہ تھا وہ اسی
طرح میری
چوت کو چاٹتے رہیں
جب میری
چوت دوبارا گھیلی ہو گہی ابو نے اپنا لن میری چوت میں دوبارہ ڈال دیا اور زور زور
سے اپنے لن کو میری
چوت
میں ڈالنے
لگے اسی دوران کبھی وہ میرے ہونٹوں کو چوستے اور کبھی میرے مموں کو چوستے اور میں
دوسری بار
فارغ ہونے
کی قریب آگئی اور جب میں فارغ
ہونے لگی
تو میری زور زور کی آوازیں نکلنے لگی اور کچھ پل میں ابو بھی میری چوت میں فارغ
ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عجیب
سا نشہ تھا ایک عجیب سکون
تھا؛ میری
آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں اور دس منٹ تک ابو نے اپنے لن کہ میری چوت سے نہیں نکال
جب ان کا
لن سکڑھ گیا
تو خود بخود لن باہر نکل آیا
اور وہ میری
ساتھ لیٹ گئے اور مجھے اپنے سینے چپکا دیا۔ آدھ گھنٹا لیٹنے کے بعد وہ اٹھے اور
واش روم چلے گئے
اور ان کے
واپس آنے پر میں واش روم گئی اور
خود صاف کر
کے واپس آگئی
اور دیکھا
ابو میرے بیڈ پر میرا انتطار کر رہے تھے اور میں واپس آکر ان کے سینے پر سر رکھ کر
سو گئی اور صبح
دس بجے میری
آنکھ کھلی
جب تک ابو اپنی ڈیوٹی پر جا چکے تھے ۔ پھر یہ سلسلہ دوسرے تیسرے دن سے چلتا رہ، جب
سے ابو
میرے ساتھ
سیکس کرنے لگے ہیں وہ اپنے
کام میں بھی
ایکٹیو ہو گئے ہیں اور اپنا کھعےال بھی رکھنے لگے ہیں، ڈیلی شیو کرنا اور بالوں کو
ریگولر کلر
کرنا، جیسے
ان نئی نویلی دلہن مل گئی ہو، مجھے
بھی اب یہ
سب اچھا لگنے لگا ہے اور میں اپنے ابو کے انے انتظار کرتی رہی ہوں۔ میری کہانی کیسی
لگی پلیز
مجھے اپنی
رائے ضرور دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! میرا
نام ندیم ہے۔ مجھے آپ جانتے ہی ہیں اور اس سے پہلے آپ میرے دو واقعات “بیوی کی مدد
سے شازیہ کا ریپ” اور “لڑکیوں اور عورتوں کی گانڈ مارنے کے درست طریقے” پڑھ چکے ہیں۔آج
میں ایک اور سچا واقعہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔میں 28 سال کا ہوں اور ایک پرائیویٹ فرم
میں جاب کرتا ہوں۔ میری شادی ہو چکی ہے اور میں اپنی بیوی عروج کے ساتھ اسلام آباد
میں رہ رہا تھا۔ دو مہینے پہلے میری ماموں زاد بہن 12ویں کے امتحانات کے بعد ہمارے
ساتھ رہنے آ گئی۔ اس کو ابھی سپوکن انگلش کا ایک کورس کرنا تھا پھر نمل یونیورسٹی
سے بی اے۔ اس کے ممی پاپا اسے ہمارے گھر چھوڑ کر چلے گئے اور مجھے اس کا گارڈین
بنا گئے۔ بی اے میں داخلہ کے بعد اسے ہاسٹل ملنے پر اسے ہاسٹل جانا تھا۔ اس کا نام
نوشین تھا، 18 سال کی نوشین کی پر جوانی خوب چڑھ رہی تھی۔ 5’5″ کی نوشین
کا رنگ تھوڑا سانولا تھا، پر اکہرے بدن کی نوشین کی فگر میں غضب کا نشہ تھا۔ 34 22
34 کی نوشین کو جب بھی میں دیکھتا میرا لنڈ کھڑا ہونا شروع ہو جاتا۔ حالانکہ میں
دکھاوا کرتا کہ مجھے اس کے بدن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پر مجھے پتا تھا کہ نوشین
کو بھی میری نظر کا احساس ہے۔ تقریباً ایک مہینے میں ہم لوگ کافی گھل مل گئے۔ انہی
دنوں میری بیوی عروج کو اپنے میکے جانا پڑا اور میں نے نوشین کو چودنے کا ارادہ
عروج کے واپس آنے تک ملتوی کر دیا۔میرے دونوں قریبی دوستوں سلیم اور انور سے بھی
نوشین خوب فرینڈلی ہو گئی تھی۔ وہ دونوں لگ بھگ روز میرے گھر آتے تھے۔ مئی کے
دوسرے سوموار کے ایک دوپہر کی بات ہے۔ نوشین کوچنگ کلاس گئی تھی اور ہم تینوں دوست
بیٹھ کر بیئر پی رہے تھے۔ بات کا موضوع تب نوشین ہی تھی۔ میرے دونوں دوست اس کی
فگر اور باڈی کی بات کر رہے تھے، پر میں چپ تھاانور نے مجھے چھیڑا کہ میں ایکدم بیوقوف
ہوں کہ اب تک اس کی جوانی بھی نہیں دیکھی ہے۔ میرے یہ کہنے پر کہ وہ مجھے بھائی
بولتی ہے، دونوں ہنسنے لگے اور کہا کہ ٹھیک ہے، ہم لوگ کوشش کر کے اس کو تھوڑا ڈھیٹ
بنائیں گے، پر ان دونوں نے شرط رکھی کہ میں بھی موقع ملتے ہی اسے چود دوں گا اور
پھر ان دونوں کو یہ واقعہ بتاؤں گا۔پھر انور بولا یار اس کی ایک پینٹی لا دو، تو میں
ابھی مٹھ مار لوں۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی اور نوشین گھر آ گئی۔ سفید شلوار اور
پیلے چکن کے کرتے میں وہ غضب کی سیکسی دکھ رہی تھی۔ ہم سب کو بیئر کے مزے لیتے دیکھ
وہ مسکرائی، سلیم نے اس کو بھی بیئر میں ساتھ دینے کو دعوت دی۔ میری توقع کے خلاف
وہ ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔ہم لوگ ادھر ادھر کی بات کرتے ہوئے بیئر کا مزا لے
رہے تھے۔ نوشین بھی خوب مزے لے رہی تھی۔ ایک ایک بوتل پینے کے بعد سلیم بولا کیوں
نہ ہم لوگ تاش کھیلیں، وقت اچھا کٹے گا۔ سب کے ہاں کہنے پر میں تاش لے آیا اور تب سلیم
بولا چلو اب آج کے دن کو فن ڈے بنایا جائے۔
نوشین نے
ہاں میں ہاں ملائی۔سلیم اب بولا ہم سب سٹریپ پوکر کھیلتے ہیں، اگر نوشین ہاں کہے
تو! ویسے بھی اب آج فن ڈے ہے۔نوشین کا جواب تھا اگر بھیا کو پریشانی نہیں ہے تو
مجھے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے۔اب انور بولا نوشین! ہم لوگوں کے بدن پر چار چار
کپڑے ہیں، تم اپنا دوپٹا ہٹاؤ نہیں تو تمہارے پانچ کپڑے ہوں گے۔نوشین مزے کے موڈ میں
تھی، بولی نہیں، اکیلی لڑکی کھیلوں گی، تین لڑکوں کے ساتھ مجھے اتنی تو چھوٹ ملنی
چاہیے۔سلیم فیصلہ کرتے ہوئے بولا ٹھیک ہے، پر ہم لڑکوں کے کپڑے تم کو اتارنے ہوں
گے، اور تمہارا کپڑا وہ لڑکا اتارے گا جس کے سب سے زیادہ پوائنٹس ہوں گے۔میں سب سن
رہا تھا، اور من ہی من میں خوش ہو رہا تھا۔ اب مجھے لگ رہا تھا کہ میں سچ میں بیوقوف
ہوں، نوشین تو پہلے سے ہی مست لونڈیا تھی۔میرے سامنے انور تھا، نوشین میرے داہنے
اور سلیم میرے بائیں تھا۔ پہلا گیم انور ہارا اور گیم کے مطابق نوشین نے انور کی
قمیض اتار دی۔دوسرے گیم میں میں ہار گیا، اور نوشین مسکراتے ہوئے میرے قریب آئی
اور میری ٹی شرٹ اتار دی۔ پہلی بار نوشین کا ایسا لمس مجھے اچھا لگا۔
تیسرے گیم
میں نوشین ہار گئی اور سلیم کو اس کا ایک کپڑا اتارنا تھا۔ سلیم نے اپنے داہنے
ہاتھ سے اس کا دوپٹا ہٹا دیا اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی ایک چونچی کو ہلکے سے
چھو لیا۔ میرا لنڈ اب سرسرانے لگا تھا۔اگلے دو گیم سلیم ہارا اور اس کے بدن سے ٹی
شرٹ اور بنیان دونوں اتر گئے۔اس کے بعد والی گیم میں ہارا اور میرے بدن سے بھی بنیان
ہٹ گئی اور پھر جب سلیم ہارا تو اب پہلی بار کسی کا کمر کے نیچے سے کپڑا اترا۔ نوشین
نے خوب خوش ہوتے ہوئے سلیم کی جینز کھول دی۔ میکرومین برف میں سلیم کا لنڈ ہارڈ ہو
رہا ہے، صاف دکھ رہا تھا۔ایک نئی بیئر کی بوتل تبھی کھلی۔ اس کے مزے لیتے ہوئے پتے
بٹے، اور اس گیم میں نوشین ہار گئی، اور انور کو اس کے بدن سے کپڑا ہٹانا تھا۔ نوشین
اب میرے سامنے انور کی طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی، جس سے انور کو اس کے کرتے کی
زپ کھولنے میں سہولت ہو۔انور نے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے سے اس کی چونچی
پہ لا کر دو تین بار چونچیاں مسلیں، اور پھر اس کے کرتے کی زپ کھول کے کرتے کو اس
کے بدن سے الگ کر دیا۔ اب نوشین صرف شلوار اور برا میں ہمارے سامنے تھی۔ ایک بار
ہماری نظر ملی، وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ گلابی رنگ کی برا میں کسی اس کی شاندار
چھاتی کسی کو بھی مست کر سکتی تھی۔ اس کا ایکدم سپاٹ پیٹ اور گہری ناف دیکھ ہم تینوں
لڑکوں کے منہ سے ایک ایئیئیس سس نکلتے نکلتے رہ گیا۔وہ ایکدم مست دکھ رہی تھی۔ اس
کی ناف کے ٹھیک نیچے ایک کالا تل دیکھ سلیم بول اٹھا بیوٹی سپاٹ بھی شاندار جگہ پر
ہے نوشین۔ اتنی جاندار فگر ہے تمہاری، تھوڑا اپنے بدن کا خیال رکھو۔نوشین بولی
کتنا ڈایٹنگ کرتی ہوں ندیم بھائی سے پوچھیے۔سلیم اب بولا میں تمہارے انڈر آرم کے
بالوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔سچ نوشین کے بغلوں میں خوب سارے بال تھے، کافی بڑے
بھی۔ ایسا لگتا تھا کہ نوشین کافی دنوں سے ان کو صاف نہیں کیا ہے۔ پہلی بار میں ایک
جوان لڑکی کی بغلوں میں اتنے بال دیکھ رہا تھا اور اپنے دوستوں کو دل میں تھینکس
بول رہا تھا کہ ان کی وجہ سے مجھے نوشین کے بدن کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔نوشین
پر بیئر کا میٹھا نشا ہو گیا تھا اور وہ اب خوب مزے لے رہی تھی ہم لڑکوں کے ساتھ۔
ویسے نشا تو ہم سب پر تھا بیئر اور نوشین کی جوانی کا۔نوشین مسکرائی اور بولی چلیے
اب پتے بانٹیے بھیا۔ پتے بانٹنے کی میری باری تھی۔برا میں کسے ہوئے نوشین کی
جاندار چونچیوں کو ایک نظر دیکھ کر میں نے پتے بانٹ دیے۔ یہ گیم میں ہار گیا۔ مجھے
تھوڑی جھجھک تھی۔پر جب نوشین خود میرے پاس آکر بولی بھیا کھڑے ہو تا کہ میں تمہاری
پینٹ اتاروں!تب میں بھی مست ہو گیا۔
میں نے کہا
اوکے، جب گیم کا یہی اصول ہے تب پھر ٹھیک ہے، کھول دو میری پینٹ، اور میں کھڑا ہو
گیا۔نوشین نے اپنے ہاتھ سے میرے برموڈا کو نیچے کھینچ دیا اور جب جھک کر اس کو میرے
پیروں سے باہر کر رہی تھی تب میری نظر اس کے برا میں کسی ہوئی چونچیوں پر تھی، جو
اس کے جھکے ہونے سے تھوڑا زیادہ ہی دکھ رہی تھی۔
انور نے
اپنا ہاتھ آگے کیا اور نوشین کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کے چوتڑ پر ایک ہلکا سا
چپت لگایا۔ وہ چونک گئی، اور ہم سب ہنسنے لگے۔میرا لنڈ فرینچی میں ایکدم کھڑا ہو گیا
تھا اور نوشین کو بھی یہ پتا چل رہا تھا۔اگلی بازی انور ہارا، اور اس کی بھی بنیان
اتر گئی۔ پر جب تک نوشین اس کی بنیان اتار رہی تھی، وہ تب تک اس کے ننگے پیٹ اور
ناف کو سہلاتا رہا تھا۔اگلی بازی میں جیتا اور نوشین ہار گئی۔ پہلی بار مجھے نوشین
کے بدن سے کپڑا اتارنے کا موقع ملا۔ نوشین میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ میرے دل میں
جوش تھا پر تھوڑی جھجھک بھی تھی۔ مجھے نوشین کی شلوار کھولنی تھی۔میں نے ابھی
شلوار کا ازاربند پکڑا ہی تھا کہ انور بولا تھوڑا سنبھل کے! جوان لڑکیوں کی شلوار
کے اندر بم ہوتا ہے، دھیان رکھنا ندیم۔میں جھینپ گیا، نوشین بھی تھوڑا جھینپی، پر
پھر سنبھل گئی اور بولی میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں، سیدھی سادھی لڑکی ہوں بھائی،
ایسا کیوں بولتے ہیں انور بھیا۔میں تب تک اس کا ناڑا کھول کے اس کی شلوار نیچے
کھسکا چکا تھا، اور وہ اپنے پیر اٹھا کے اس کو پوری طرح سے ٹانگوں سے نکالنے کی
کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھوں کو پکڑ کر اپنے پیر اوپر کر
رہی تھی، تا کہ میں اس کی شلوار پوری طرح سے اتار سکوں۔اب جب میں نے نوشین کو دیکھا
تو میرا لنڈ ایک بار پوری طرح سے تن گیا۔ گلابی برا اور میرون پینٹی میں نوشین ایک
مستانی لونڈیا لگ رہی تھی۔ اس کا سانولا سلونا بدن میرے دوستوں کے بھی لنڈ کا برا
حال بنا رہا تھا۔اس کے بعد کی بازی انور پھر ہارا اور نوشین نے اس کا پینٹ کھول دیا۔
اس بار نوشین کے چوتڑ پہ سلیم نے طبلا بجا دیا، پر اب نوشین نہیں چونکی، وہ شاید
سمجھ گئی تھی کہ اکیلی لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کو اتنی چھوٹ ہم لڑکوں کو دینی ہوگی۔اب
جب کہ ہم سب اپنے انڈرگارمینٹس میں تھے، سلیم بولا کیا اب ہم لوگ گیم روک دیں؟ کیونکہ
اس کے بعد الف ننگا ہونا پڑے گا۔اس نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ انور بولا
کوئی بات نہیں، ننگا ہونے کے لیے ہی تو سٹریپ پوکر کھیلا جاتا ہے۔میں دل سے چاہ
رہا تھا کہ کھیل نہ رکے اور میں ایک بار نوشین کو پوری ننگی دیکھوں۔سلیم نے نوشین
سے پوچھا بولو نوشین، تم اکیلی لڑکی ہو، آگے کھیلوگی؟اس پر تو مزے کا نشا تھا۔ وہ
چپ چاپ مجھے دیکھنے لگی، تو انور بولا ارے نوشین تم اپنے اس بھیا کی فکر چھوڑو۔
اگر تم میری بہن ہوتی، تو جتنے دن سے تم اس کے ساتھ ہو، اتنے دن میں یہ سالا تم کو
سو بار سے کم نہیں چودتا۔ دیکھتی نہیں ہو، اس کا لنڈ ابھی بھی ایکدم کھڑا ہے،
سوراخ میں گھسنے کے لیے۔اور اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور انڈرویئر کے اوپر سے میرے
لنڈ پہ پھیر دیا۔ میں اس بات کی امید نہیں کر رہا تھا، چونک گیا۔ اور سب لوگ ہنسنے
لگے، نوشین بھی میری حالت پہ کھل کر ہنسی۔ بیئر کا ہلکا نشا اب ہم سب پر تھا۔اگلی
بازی انور ہار گیا اور نوشین مسکراتے ہوئے اس کو دیکھی۔ انور اپنی ہی مستی میں تھا
بولا آؤ، کرو ننگا مجھے۔ تمہارے جیسی سیکسی لونڈیا کے ہاتھوں تو سو بار میں ننگا
ہونے کو تیار ہوں۔اور جب نوشین نے اس کا انڈرویئر کھولا تو اس کا 7″ کا پھنپھناتا
ہوا لنڈ کھلے میں آ کر اپنا نظارا دینے لگا۔ انور بھی نوشین کو اپنی بانہوں میں کس
کر اس کے ہونٹ چومنے لگا اور اس کا لنڈ نوشین کے پیٹ پہ چوٹ مار رہا تھا۔ تین چار
چمیوں کے بعد اس نے نوشین کو چھوڑا تب وہ دوبارہ اپنی جگہ پہ بیٹھی۔انور سائیڈ میں
بیٹھ کر اپنے لنڈ سے کھیلنے لگا۔ وہ ساتھ میں اپنا بیئر کا گلاس بھی لے گیا۔اگلے گیم
میں نوشین ہار گئی اور مجھے اس کی برا کھولنی تھی۔ وہ آرام سے میرے سامنے آ کر میری
طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی، اور پیٹھ سے اپنے بال سمیٹ کر سامنے کر لیے، تا کہ میں
آرام سے اس کے برا کی ہک کھول سکوں۔میں نے پیار سے برا کا ہک کھولا، اور وہ اب سیدھی
ہو گئی، تا کہ میں اس کی چونچیوں پر سے برا نکال سکوں۔ میں نے جونہی برا ہٹایا،
نوشین کی چھوٹی چھوٹی گول گول نوکیلی چونچیاں سر ابھارے میرے سامنے تھیں۔ اف کیا
نظارا تھا۔میں ساکت کھڑا تھا۔انور پہ سچ مچ تھوڑا نشا ہو گیا تھا، بولا ابے سالے
ندیم، اب تو چھو لے اس کو۔ تیری بہن ہے، بار بار چونچی ننگی کر کے نہیں دے گی تیرے
کو۔اس کی بات سن کر مجھے خوب مزا آیا، پر نوشین کو پتا نہیں کیا لگا، وہ بولی دل
چاہتا ہے تو چھو لیجیے ندیم بھائی۔میں سمجھ گیا کہ اب وہ بھی ہلکے نشے میں تھی۔ میں
نے دو چار بار اس کی چونچی پہ ہاتھ پھیرا۔
اگلی بازی
میں ہار گیا۔ نوشین خوب خوش ہوئی اور زور سے بولی ہاں اب کروں گی آپ کو ننگا ندیم
بھائی۔میں کھڑا ہو گیا اور اس نے میری فرینچی کو نیچے کر دیا۔میرا پھنپھنایا ہوا
لنڈ آزاد ہو کر خوش ہو گیا۔ میرا ٹوپا سامنے کو کھڑا تھا اور سلامی دے رہا
تھا۔انور کیسے چپ رہتا، وہ بول پڑا نوشین کھیل لو اس لنڈ سے، تمہارے بھیا کا ہے،
ہمیشہ نہیں ملے گا دیکھنے کے لیے۔سلیم بھی بولا کیوں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے
گا قاضی۔اور دونوں ہنسنے لگے۔نوشین میرے لنڈ کو لے کر سہلانے لگی۔ تب سلیم دوبارہ
بولا ہاتھ سے لنڈ کے ساتھ تو لڑکے کھیلتے ہیں نوشین! لڑکی تو لنڈ کا لالی پاپ بنا
کر چوستی ہیں۔نوشین سے میں یہ امید نہیں کر رہا تھا مگر وہ تو فوراً ہی میرے لنڈ
کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ دو چار بار کے بعد اس نے برا سا منہ بنایا، شاید
اس کو اچھا نہیں لگا تو وہ میرا لنڈ چھوڑ کر سلیم کے سامنے بیٹھ گئی۔سلیم بولا اب
کی بازی میں کھیل ختم ہو جائے گا۔ اس لیے جو دوسرے کو ننگا کرے گا وہ ایک منٹ تک
اس کے پرائیویٹ پارٹ کو چوسے گا۔ منظور ہے تو بولو ورنہ یہیں پہ کھیل ختم کرتے ہیں۔نوشین
کی آنکھیں لال ہو گئی تھی۔ وہ اب نشے میں تھی۔ اس نے پتے اٹھا لیے اور آخری بازی
بٹ گئی۔ میں دل سے چاہ رہا تھا کہ نوشین ہار جائے تا کہ اس کی چوت کا بھی آج نظارا
ہو جائے۔اور میری چاہت رنگ لائی۔ سلیم جیت گیا اور نوشین ہار گئی۔ سلیم نے اب نوشین
کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر اس کو سینٹر ٹیبل پہ لٹا دیا اور اس کے دونوں پیروں کے
بیچ آ گیا۔ خوب پیار سے اس کی مخملی رانوں کو سہلایا اور پھر مجھے اور انور کو پاس
آنے کا اشارا دیا آ جاؤ بھائی لوگو، اب نوشین کی چوت کا دیدار کرو۔میں تو کب سے بے
چین تھا اس پل کے لیے۔ہم تینوں دوست میز کو گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ نوشین اب تک
مسکرا رہی تھی۔ سلیم نے نوشین کی پینٹی کے الاسٹک سے نیچے کی جانب فولڈ کرنا شروع
کیا۔ دوسرے ہی فولڈ کے بعد نوشین کی جھانٹوں کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ دھیرے دھیرے
اس کی چوت کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی۔سلیم نے اس کے پیروں کو اوپر کی طرف کر کے
پینٹی نیچے سے پیروں سے نکال دی اور پھر دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں کو تھوڑا سائیڈ
کی طرف کھول دیا اور اب نوشین کی چوت کی پھانکیں ایکدم سامنے دکھ رہی تھیں۔ نوشین
کی چوت پہ 2″ لمبے بال تھے اور ان بڑی بڑی جھانٹوں کی وجہ سے اس کے چوت کی دانہ
صاف نہیں دکھ رہا تھا۔سلیم نے اس کی چوت پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی جھانٹوں کو
ہٹا کر ہم دونوں کو اس کی چوت کے پورے نظارے کرائے۔جب نوشین کی نظر مجھ سے ملی تب
اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرا ڈھک لیا۔ پر اب مجھے اس کی شرم کی پرواہ نہیں تھی۔
ہم میں سے کسی کو بھی نہیں تھی۔نوشین بولی بس اب مجھے چھوڑ دیجیے۔
پر سلیم نے
اس کو یاد کرایا کہ ابھی تو ایک منٹ تک وہ اس کی چوت کو چوسے گا۔اس کے بعد وہ نوشین
کی چوت چوسنے میں لگ گیا، انور مٹھ مارنے لگا اور میں سب چیزیں سمیٹنے لگا۔ نوشین
کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگی تھیں۔نئی نئی جوانی چڑھی تھی بیچاری پہ، اس لیے وہ
اتنا مزا پا کر شاید جھڑ گئی اور بولی اب بس، اب مجھے پیشاب آ رہا ہے۔پر سلیم تو
رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ نوشین نے دو تین بار اپنے بدن کو سلیم کی گرفت سے
چھڑانا چاہا، پھر اسی میز پر ہی سلیم کے چہرے پہ سو سو کرنے لگی۔ سلیم نے اب اپنا
چہرا ہٹا لیا۔نوشین نے اپنا بدن ایکدم ڈھیلا چھوڑ دیا اور خوب پیشاب کیا، پھر پر
سکون ہو گئی۔دو منٹ ایسے ہی رہنے کے بعد اسے کچھ ہوش آیا اور تب وہ اٹھی اور پھر
اپنے کپڑے اٹھا کر اپنے بیڈروم میں چلی گئی۔ہم لوگوں نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔سلیم
بولا اب تھوڑی دیر اس کو اکیلا چھوڑ ورنہ وہ رونے لگے گی، جب اس کو لگے گا کہ اس
بے چاری کے ساتھ شراب کے نشے میں کیا کیا ہوا ہے۔ہم لوگ اب پاس کی مارکیٹ کی طرف
نکل گئے، نوشین تب باتھ روم میں تھی۔چار دن آرام سے بیت گئے۔نوشین کے ساتھ تاش کے
بہانے ننگ پن کے کھیل کے بعد سلیم اور انور اس دوران گھر نہیں آئے، پر فون پر ہمیشہ
مجھ سے پوچھا کہ میں نے اب تک نوشین کو چودا یا نہیں۔مجھے اتنا ہونے کے بعد بھی
ہمت نہیں ہو رہی تھی نوشین سے سیکس کے لیے کہنے کی۔ نوشین بھی ایسے تھی جیسے اس دن
کچھ ہوا ہی نا ہو۔کھیر، جب سلیم نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر آج میں نے نوشین کو نہیں
چودا تو وہ اسے پٹا کے میرے سامنے چودے گا تب مجھے بھی جوش آ گیا، اور شام میں ڈنر
ٹیبل پر میں نے نوشین سے کہا، “نوشین، آج رات میرے ساتھ سو جاؤ نا پلیز، اس دن کے
بعد سے مجھے بہت بے چینی ہو رہی ہے۔ “یہ بات میں نے اپنا سر نیچے کر کے کھانا
کھاتے ہوئے کہا۔میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں نوشین سے نظریں ملاؤں۔نوشین نے میرے
جھجھک یا شرم کو سمجھ لیا اور پھر میرے پاس آ کر میرے سر کو اٹھایا اور کہا، “آج
نہیں، دو تین دن بعد! “اور میرے ہونٹ چوم لیے۔مجھ میں اب ہمت آ گئی اور میں نے
پوچھا، “آج کیوں نہیں، دو تین دن بعد کیوں؟”اب نوشین مسکراتے ہوئے میرے کان کے پاس
سرگوشی کرتے ہوئے بولی، “تھوڑا سمجھا کرو ندیم بھائی! ابھی پیریڈز چل رہے ہیں، اسی
لیے کہہ رہی ہوں دو تین دن بعد۔ تب تک اس سے کھیلو! “کہتے ہوئے اس نے اپنے پستانوں
پر میرا ہاتھ رکھ دیا۔ میں خوش ہو گیا کہ چلو اب دو تین دن بعد نوشین جیسی ایک مست
لونڈیا ملے گی چودنے کو۔تیسرے دن جب میں آفس سے لوٹا تو نوشین ایکدم فریش لگ رہی
تھی، مجھ سے بولی، “ندیم بھائی! آج کہیں باہر چلیے ڈنر کے لیے۔ “وہ تیار تھی۔ قریب
ایک گھنٹے بعد ہم لوگ ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ وہ میرے ساتھ ایسے برتاؤ
کر رہی تھی جیسے وہ میری گرل فرینڈ ہو۔ مجھے بھی مزا آ رہا تھا۔ قریب 9 بجے جب ہم
لوٹ رہے تھے تب نوشین نے مجھ سے کہا، “راستے میں کہیں سے کنڈوم خرید لیجیے گا ندیم
بھائی۔ “یہ سن کے میرا لنڈ گرم ہونے لگا۔ میں نے بات ہلکے سے لیتے ہوئے پوچھا، “کیوں،
آج رات میرے ساتھ سونا ہے کیا؟”اور میں نے اس کا ہاتھ زور سے دبا دیا۔وہ ایک قاتل
مسکان کے ساتھ بولی، “آپ کے ساتھ بیڈ پہ جب میں رہوں گی، تب آپ سوئیں گے یا جاگیں
گے؟”میں نے اس کو گھورتے ہوئے کہا، “بہت گہری چیز ہو نوشین تم، ایکدم کتی چیز ہو
بھئی۔ “وہ بھی پورے موڈ میں تھی، بولی، “آپ اور آپ کے دوستوں کا کیا ہے سب، ورنہ میں
جب آپ کے پاس آئی تب تک مجھے ہیئر ریموور تک استعمال کرنا نہیں آتا تھا۔ “میں نے
اس کے چوتڑوں پہ ایک چپت لگائی اور کہا، “ہاں، وہ تو اس دن تیری جھانٹیں دیکھ کر ہی
پتا چل گیا تھا۔ تم فکر نہ کرو، بنا کنڈوم بھی میں جب کروں گا تو اپنا مال اندر نہیں
باہر نکالوں گا۔ “اور ہم دونوں گھر آ گئے۔نوشین بولی آپ چلیے، میں تیار ہو کر آتی
ہوں۔پر میرے لیے اب رکنا مشکل تھا، بولا، “اس میں تیار کیا ہونا ہے، ننگا ہونا ہے
بس۔ “اور میں اپنے شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ کچھ وقت میں ہی میں صرف اپنے فرینچی
انڈرویئر میں تھا۔نوشین پاس کھڑی دیکھ رہی تھی، بولی، “بہت بے چینی ہے کیا؟”وہ
مجھے چڑانے کے موڈ میں تھی۔ میں اس کی یہ ادا دیکھ مست ہو رہا تھا، پر اوپر سے
بولا “اب جلدی سے آ اور پیار سے چدوا لے، ورنہ پٹخ کے چوت چود دوں گا۔ سالے یار
لوگوں نے روز پوچھ پوچھ کر کان پکا دیے ہیں۔ “نوشین اب سٹپٹائی اور پوچھا، “کیا آپ
اپنے دوستوں سے میرے بارے میں بات کرتے ہیں؟”اس کے چہرے سے فکر دکھی تو میں نے سچ
کہہ دیا، “سلیم اور انور روز پوچھتے ہیں، اس دن کا تاش کا کھیل بھی میرے اور
تمہارے بیچ یہی کروانے کے لیے ہی تو تھا۔ اصل میں، جب سے تم آئی ہو اس دن سے وہ
دونوں تیرے بدن کے پیچھے پڑے ہیں۔ “نوشین اب پر سکون ہوئی، “اچھا وہ دونوں، مجھے
لگا کہ کوئی اور دوستوں کو بھی آپ نے بتایا ہے۔ کیا آپ آج رات کی بات بھی ان کو
بتائیں گے؟”میں نے دیکھا کہ اب سب ٹھیک ہے، سو سچ کہ دیا “ضرور، وہ ضرور پوچھیں
گے، اور تب میں بتا دوں گا! “اور میں نے نوشین کو پاس کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا
اور اس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔نوشین بھی مزے کر رہی تھی، ہم لوگ کوئی 5 منٹ تک
صرف ہونٹ ہی چوستے رہے۔ نوشین کی سانس تھوڑی گہری ہو گئی تھی۔میں نے نوشین کو کہا،
“چلو اب بیڈ پر چلتے ہیں۔ ” اس نے ایک بچے کی طرح مچلتے ہوئے کہا، “میں خود نہیں
جاؤں گی، گودی میں لے چلو مجھے۔ میں تم سے چھوٹی ہوں یا نہیں۔ “اسے بچوں کی طرح
مچلتے دیکھ مجھے مزا آیا، بولا، “سالی، نخرا کر رہی ہے، چھوٹی ہے تو، ابھی دو منٹ
میں جوانی چڑھ جائے گی! ” اور اس کو میں نے گودی میں اٹھا لیا۔وہ میرے سینے سے لگ
گئی اور بولی، “ایسے کبھی گودی لیتے کیا آپ، اگر میں نہ کہتی! “میں نے جواب دیا،
“ارے تیرے جیسی مست لونڈیا اگر بولے تو اپنے سر پہ بٹھا کے لے جاؤں اسے! “میں نے
اس کو اپنے بیڈ پہ لا کر پٹخ دیا۔ مجھے پیشاب آ رہا تھا، تو باتھ روم جاتے ہوئے میں
نے کہا، “اب اتار اپنے کپڑے، اور ننگی ہو جا، جب تک میں آتا ہوں”۔میں جب لوٹا تب
بھی نوشین اپنے پورے کپڑوں میں بیڈ پر دکھی۔ میں تھوڑا چڑ گیا اس بات پر۔ میں بولا
“کیا سالی نخرے کر رہی ہے، میرا لنڈ کھڑا کر کے۔ میرے سے کپڑے اتروانے ہیں تو آ
ذرا لنڈ چوس میرا۔ “وہ بھی تھوڑا تنک کر بولی، “اچھا، تو اب میں آپ کی سالی ہو گئی۔
آپ دو بار مجھے سالی بول چکے ہیں!”پھر مسکرانے لگی۔میں نے ہنستے ہوئے کہا، “تو کیا
تم مجھے بہن چود بنانا چاہتی ہو؟”اس بار وہ سیکسی انداز میں بولی، “آپ مجھے رنڈی
بنا رہے ہو تو کوئی بات نہیں اور میں آپ کو بہن چود بھی نا بناؤں ؟”اور وہ میرے سے
چپک گئی۔ میں نے اس سے نظر ملا کے کہا، “میں تو تمہیں اپنی رانی بنا رہا ہوں جان،
رنڈی نہیں۔ پر تمہارے لیے بہن چود، کیا تو جو بول وہی بن جاؤں گا میری پیاری نوشین۔
“میں پھر اس کے ہونٹ، گال چومنے لگا۔ وہ ساتھ دیتے ہوئے بولی، “تھینکس ندیم بھائی،
پر مجھے تو رنڈی بننا پڑے گا اب۔ آپ کے دونوں دوست مجھے زیادہ دن چھوڑیں گے ہی نہیں!
“میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی، “یہ بات تو ہے، نوشین، پر کوئی بات نہیں ایک دو
بار سے زیادہ وہ لوگ نہیں کریں گے۔ میں جانتا ہوں ان کو! “نوشین تھوڑا گرم ہونے لگی
تھی، بولی، “اب چھوڑو یہ سب بات اور چلو شروع کرو ندیم بھائی! “مجھے یہ سن کر مزا
آیا، “کیا شروع کرے تمہارا ندیم بھائی، ذرا ٹھیک سے تو کہو میری چھوٹی بہنا۔ “میرا
ہاتھ اب اس کی داہنی چونچی کو کپڑے کے اوپر سے ہی مسل رہا تھا۔ ایک بار پھر میں نے
پوچھا، “بول نا میری بہنا، کیا شروع کرے تمہارا بھیا! بات کرتے ہوئے زیادہ مزا آے
گا میری جان۔ اس لیے بات کرتی رہو، جتنی گندا باتیں بولوگی، تمہاری چوت اتنا زیادہ
پانی چھوڑے گی۔ اب جلدی بولو بہن، کیا شروع کروں میں؟”اس کی آنکھیں بند تھی، بولی
“میری چدائی”چدائی یا تیری چوت کی چدائی؟”میری چوت کی چدائی”، وہ بولی۔میرے دونوں
ہاتھ اب اس کے چوتڑوں پر تھے، میں ہلکے ہلکے انہیں دبا رہا تھا۔پھر میں نے اس کو بیڈ
پر بٹھا دیا، اور اس کی کرتی دھیرے دھیرے سر کے اوپر سے اتار دی۔ اس کے بعد میں نے
اس کی شلوار کھول دی۔ اب نوشین میرے سامنے ایک سفید برا اور کالی پینٹی میں تھی۔میں
نے کہا، “اب ٹھیک ہے، آؤ لنڈ چوس کر ایک دفعہ منی نکال دو! “نوشین اب مذاق کے موڈ
میں تھی، اپنی گول گول آنکھیں نچاتے ہوئے بولی، “کس کا لنڈ چوسوں، مجھے تو کوئی
لنڈ دکھ نہیں رہا۔ “مجھے اس کی یہ ادا بھا گئی، میں نے گندے تریکے سے کہا، “اپنے پیارے
بھیا کا لنڈ نکالو اور پھر اس کو منہ سے چوسو، میری رنڈی بہنا! اپنے بھیا کو سیاں
بنا کے چدواؤ اپنی چوت اور پھر اپنی گانڈ بھی مرواؤ! “میں سیدھا لیٹ گیا۔ نوشین نے
میرا لنڈ چوسنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کو لنڈ سے کھیلنا سکھایا اور وہ جلدی ہی
سمجھ گئی اور مجھے مزے دینے شروع کر دیے۔ کوئی 10 منٹ چسانے کے بعد میرا لنڈ جب
جھڑنے والا تھا، میں نے نوشین کو کہا کہ وہ تیار رہے اور پھر میں اس کے منہ میں
جھڑ گیا۔ میرے کہنے سے اس نے میرا سارا ویرے پی لیا۔اب میں نے اس کی برا اور پینٹی
کھول دی۔ کالی کالی جھانٹوں سے بھری ہوئی اس کی چوت کا ایک بار پھر درشن کر میں
نہال ہو گیا۔ جیسے ہی میرے ہاتھ نوشین کی چوت کی طرف گئے، وہ بولی، “بھیا، کچھ
ہوگا تو نہیں۔ ڈر لگ رہا ہے، کہیں بدنامی نا ہو جائے۔ “میں نے سمجھاتے ہوئے کہا، “کچھ
نہیں ہوگا۔ آج تک جب تمہاری بدنامی نہیں ہوئی تو اب کیو ڈر رہی ہو؟”اس کا جواب سن
کے میری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔ وہ بولی تھی، “آج پہلی بار کرواؤں گی، اسی لیے
ڈر رہی ہوں۔ “میں بولا “کیا، کیا تم کنواری ہو اب تک؟” اس کے ہاں کہنے پر مجھے یقین
نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے بول ہی دیا، “مجھے یقین نہیں ہو رہا۔ ایک کنواری لڑکی
ہوتے ہوئے تم اس دن تین تین جوان لڑکوں کے سامنے ننگی ہو کر کھیل رہی تھی؟”وہ
ہنستے ہوئے بولی، “اس میں یقین نہ کرنے والی بات کیا ہے؟ آپ تینوں مجھ پر لائن مار
رہے تھے کئی دن سے، سو اس دن میں بھی سوچا کہ چلو آج لائن دے دیتی ہوں، بس۔ آپ لوگ
کو مزا آیا تو مجھے بھی تو مزا آیا۔ “
میں ہنس دیا،
“بہت کتی چیز ہے تو بہنا۔ چل لیٹ، ذرا تیری چوت تو دیکھوں، کتنی کنواری کلی ہے تو!
“اور میں نے اس کی چوت کی پھانکیں کھول کے اندر کی گلابی جھلی کو دیکھا۔ سالی سچ میں
ابھی تک کنواری تھی۔ سانولے بدن کی نوشین کی چوت تھوڑی سانولی تھی، جس کی وجہ سے
اس کی چوت کا پھول کچھ زیادہ ہی گلابی دکھ رہا تھا۔ قریب 10 منٹ تک اس کی چونچی
اور چوت کو چومنے چاٹنے کے بعد میں نے اس کی ٹانگوں کو چوڑا کر کے اس کی چوت کو
کھول دیا اور خود بیچ میں بیٹھ کے لنڈ کو نوشین کی چوت کی پھانک پر سیٹ کر لیا۔
مزے سے نوشین کی آنکھ بند تھی۔ وہ اب صرف آہ آہ آہ سی سی سی جیسا کر رہی تھی۔میں
نے نوشین سے پوچھا، “تیار ہو نوشین رانی چدوانے کے لیے؟ میرا لنڈ تمہاری چوت کو
چما لے رہا ہے۔ کہو تو پیل دوں اندر اور پھاڑ دوں تمہاری چوت کی جھلی؟ بنا دوں تمہیں
لڑکی سے عورت؟ کر دوں تمہارے کنوارپن کا خاتمہ؟ بولو جان، بولو میری رانی، بول میری
بہنا، چدوائے گی اپنے بھیا کے لنڈ سے اپنی چوت؟”اب اس سے رہا نہیں جا رہا تھا، وہ
بول پڑی، “ہاں میرے بھیا، چود دو میری چوت اپنے لنڈ سے۔ بنا دو مجھے عورت۔ اب مجھے
کنواری نہیں رہنا۔ “میں اپنا لنڈ پیلنے لگا وہ تھوڑا کسمسائی، شاید اس کو درد ہو
رہا تھا۔ پر میں نہیں رکا، اس کی گیلی چوت میں لنڈ گھسیڑتا چلا گیا۔ نوشین تڑپ اتھی
اور بلک بلک کر رونے لگی۔ وہ روتے روتے ثیخ رہی تھی “بس بس اب بس کریں ندیم بھائی۔۔۔
آہ ہ ہ ہ پلیز اب اور نہیں کریں اوہ ہ ہ ہ ہ ہ میں مر جاؤں گی مجھے چھوڑ دیں۔۔۔ اوہ
ہ ہ ہ امی میں مری۔۔۔ کوئی مجھے بچائے ہائے ے ے ے ے ۔۔۔ بھیااااااا بس س س س س آہ
ہ ہ ہ ہمگر میں نے اس کی چیخوں اور اور سسیکوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کے
ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کر دیا۔ اب اس کی چیخیں اوغ اوغ کی گھٹی گھٹی آوازوں
میں بدل گئی تھیں۔ میں دھکے مارتا چلا گیا۔آخر کار اس کا درد کم ہوا اور وہ مزے میں
ڈوب کر بڑبڑانے لگی “ندیم بھائی! کر دو میرے کنوارپن کا خاتمہ آج۔ میری چوت کو
جوانی کا مزا دو میرے بھیا، لوٹ لو میری جوانی کو اور چود کر بنا دو مجھے رنڈی۔
چودو مجھے بھیا، خوب چودو مجھے۔ میری جوانی کا رس لوٹو ندیم بھائی۔ “میں جوش میں
چودتا جا رہا تھا۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بولتے جا رہے تھے۔ میں بول رہا تھا، “چد سالی
چد۔ اب پھٹ گئی تیری چوت کی جھلی۔ گیا تیرا کنوارپن۔ لوٹو مزا اپنی جوانی کا۔ سالی
ابھی تھوڑی دیر پہلے بچی بنی ہوئی تھی۔ گودی میں گھوم رہی تھی۔ اب اسی چوت سے بچے
پیدا کرے گی تو میری بہنا۔ میں تمہیں چود کر بچے پیدا کروں گا۔ چدو سالی چدو، خوب
چدوا۔ “نوشین بھی بڑبڑا رہی تھی، “ابھی بچا نہیں۔ ابھی مجھے اپنے چوت کا مزا لوٹنا
ہے۔ خوب چدواؤں گی۔ جوانی کا مزا لوٹوں گی۔ پھر بچے پیدا کروں گی۔ آآہہ چودو اور
چودو مجھے۔ رنڈی بنا کے چودو۔ بیوی بنا کے چودو۔ سالی بنا کے چودو۔ بہن بنا کے
چودو، نہیں بہن تو ہوں ہی۔ اور آپ بہن چود ہو۔ ندیم بھائی، بہن چود بھیا، چودو اپنی
چھوٹی بہن کو۔ ” میں نے اب اس کو پلٹ دیا اور پیچھے سے اس کی چوت میں لنڈ پیل دیا
اور ایک بار پھر چدائی چالو ہو گئی۔ اب ووہ تھک کر نڈھال ہو گئی تھی، میں نے 8 ۔
10 زور کے دھکے لگائے اور پھر میں بھی چھوٹ گیا۔ میں نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا
تھا، میرا سارا مال اس کے مموں پر پھیل گیا۔نوشین میرے نیچے پیٹ کے بل بیڈ پہ تھی
اور میں اس کے اوپر تھا۔ میرا لنڈ اس کے گانڈ کی دراڑ پر چپکا ہوا تھا۔ ہم دونوں
زور زور سے ہانپ رہے تھے، جیسے میراتھن دوڑ کر آئے ہوں۔تبھی گھڑی نے 11 بجے کا
گھنٹا بجایا۔میں نے نوشین سے کہا، “اب گانڈ مروانے کو تیار ہو جاؤ”ووہ ہانپتے ہوئے
بولی، “نہیں بھائی! اب اور کچھ نہیں، بس سونا ہے۔۔۔ کل مار لیجیے گا گانڈ بھی”اور
اس نے کروٹ بدل لی۔ میں بھی اس کے ننگے بدن کے ساتھ چپک ننگا ہی سو گیا۔اگلے روز میں
نے نوشین کی گانڈ بھی ماری اور اس کے بعد اسے سلیم اور انور سے بھی چدوانا پڑا۔
ختم شُد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments
THANKS FOR YOUR TIME, SEE YOU SOON